اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کردیا
قومی احتساب بیور ( نیب ) کی جانب سے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کیخلاف اپیل واپس لے لی گئی جس پر عدالت عالیہ کی جانب سے اپیل کو خارج کر دیا گیا ہے۔نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلوں میں بے نامی ،اعانت جرم اور زیرکفالت سے متعلق تشریح کی ہے، آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تفتیش کے بعد پراپرٹی کی مالیت کا مرحلہ آتا ہے، معلوم ذرائع آمدن کا جائیداد کی مالیت سے موازنہ کیا جاتا ہے۔وکیل نے بتایا کہ 9 اے فائیو کا جرم ثابت کرنے کیلئے تمام تقاضے پورے نہیں کئے گئے، اس کیس میں جرم ثابت کرنے کے لیے ایک جزو بھی ثابت نہیں کیا گیا۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ریفرنس میں لکھا ہے کہ نواز شریف نے کب یہ جائیدادیں خریدیں ؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ ریفرنس میں نہ تاریخ موجود ہیں نہ ہی نواز شریف کی ملکیت کا ثبوت ہے، ظاہر کردہ آمدن کیساتھ یہ بتانا تھا کہ اثاثے بناتے وقت اُن کی قیمت کیا تھی؟۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ نیب کو آمدن اور اثاثوں کی مالیت کے حوالے سے تقابل پیش کرنا تھا ، بعد میں یہ بات سامنے آنی تھی کہ اثاثوں کی مالیت آمدن سے زائد ہے یا نہیں، اس تقابلی جائزے کے بغیر تو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا جرم ہی نہیں بنتا،1993 سے 1996 کے دوران یہ پراپرٹیز بنائی گئیں۔وکیل نے بتایا کہ ریفرنس میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت ہو، پانامہ فیصلہ،جے آئی ٹی رپورٹ، نیب انوسٹی گیشن رپورٹ میں کچھ ثابت نہیں ہوا، واجد ضیا نے خود تسلیم کیا نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کرنے کے شواہد موجود نہیں، فرد جرم میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ آپ کے اثاثے ظاہر کردہ اثاثوں کے مطابق نہیں۔امجد پرویز ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ سب سے اہم بات ان پراپرٹیز کی آنرشپ کا سوال ہے، زبانی نہ دستاویزی ثبوت ہےکہ یہ پراپرٹیز کبھی نواز شریف کی ملکیت میں رہیں،استغاثہ کویہ ثابت کرنا تھا مریم نواز،حسن اورحسین میاں نواز شریف کی زیرکفالت تھے،بچوں کےنواز شریف کےزیر کفالت ہونےکا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں،ان تمام چیزوں کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے،بار ثبوت دفاع پرکبھی منتقل نہیں ہوتا،کوئی ثبوت نہیں کہ پراپرٹیز نواز شریف کی ملکیت یا تحویل میں رہیں۔چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ سارا پراسیکیوشن کا کام ہے؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ جی بالکل یہ سب استغاثہ نے ثابت کرنا ہوتا ہے۔کورٹ نے مفروضے پر سزادی اور فیصلے میں ثبوت کے بجائے عمومی بات لکھی، عدالت نے کہا کہ مریم نواز بینفشل اونر تھیں اور نوازشریف کے زیرکفالت بھی تھیں، عدالت نے کہا کہ بچے عمومی طورپروالد کے زیرکفالت ہوتے ہیں۔نواز شریف کے وکیل نے مزید کہا کہ لاہورہائیکورٹ نے ایک نیب ملزم آئی بی کے سابق سربراہ بریگیڈئیر(ر) امتیازکو بری کیا، اس بنیاد پربریت ہوئی کہ ملزم کی مبینہ جائیدادوں کی قیمت اور آمدن کا تعین کیے بغیر ریفرنس دائرکیا۔سماعت کے دوران امجد پرویز نے مریم نواز کی ہائیکورٹ سے بریت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دےکر مریم نوازکو بری کیا تھا، عدالت نے لکھا استغاثہ کے مؤقف کو ثابت کرنے کیلئے کوئی ایک دستاویز موجود نہیں۔ جسٹس گل حسن نے کہا کہ اس عدالت نے ایک فیصلہ دیا کہ بے نامی کیلئے 4 مندرجات کا ثابت ہونا ضروری ہے، ان چاروں میں سے ایک بھی ثابت نہیں ہوتا تو وہ بےنامی کے زمرے میں نہیں آئے گا۔عدالت نے امجد پرویز کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا مختصر فیصلہ سنایا اور نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سنائی گئی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا۔دوسری جانب نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں بھی نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی۔