“جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا” پسند کی گاڑی اور جیل۔ نور اللہ

سابق وزیر اعظم نواز شریف کو 24 دسمبر 2018 کو ایک مرتبہ پھر قید, جرمانے اور نااہلی کی سزا سنا دی گئی- نواز شریف عدالت کا فیصلہ سننے کے لئے عدالت میں موجود تھے اور وہیں پر ان کو گرفتار بھی کر لیا گیا-
اس سے قبل بھی وہ اپنی صاحبزادی کے ہمراہ لندن سے واپس آئے اور گرفتار ہوئے تو دانشوروں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں نہ ڈرنے والا ایک نظریاتی لیڈر قرار دیا اور اس گرفتاری کو ان کی مشرف کے ساتھ ڈیل کا کفارہ جانا اور اس مرتبہ بھی گرفتاری کے لئے تیار نوازشریف کے عدالت آنے کو بہادری اور انقلابی انداز کے طور پر پیش کیا جارہا تھا اور مجھے امید تھی کہ سوشل میڈیا کے کچھ دوست نوازشریف کی گرفتاری پر یہ انقلابی شعر
” جس دھج سے کوئ مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے”
استعمال کریں گے لیکن نوازشریف صاحب نے سزا سنائے جانے کے بعد دو فرمائشیں کیں کہ انہیں سرکاری (بکتر بند) گاڑی کی بجائے پرائیویٹ گاڑی میں لیجایا جائے اور دوسرا یہ کہ انہیں اڈیالہ جیل کی بجائے لاہور میں کوٹ لکھپت جیل ہیں رکھا جائے ان کی اس درخواست کو منظور بھی کر لیا گیا بظاہر یہ ایک معمولی سی بات ہے لیکن یہ نواز شریف صاحب کے شاہانہ انداز زندگی کی ایک جھلک بھی ہے اور اس بات کی عکاس ہے کہ تین مرتبہ وزیراعظم بننے اور جیل (چند روز کےلئے) کاٹنے اور مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود میاں صاحب عوامی سیاسی انداز نہیں اپنا سکے بلکہ شاہانہ انداز انکی شخصیت کا زیادہ اہم پہلو بنتا جارہا ہے
میاں صاحب, ن لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ عوام کے دلوں پر حکومت کرنی ہے تو عوامی انداز بھی اپنانا ہوگا
مزید دیکھو، سنو اور جانو
-
الیکشن 2018، دوہری شہریت کے حامل بڑے سیاسی نام
الکیشن کمیشن آف پاکستان کے قواعد ضوابط کے مطابق کوئی بھی شخص جو دوہری شہریت کا حامل ہو، پاکستان میں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا
-
سیاستدانوں اور جرنیلوں میں اصل جھگڑا ہے کیا؟
Why there is a conflict between Politicians and Generals? Mujeeb Ur Rehman Shami | Jawab Un Kay #01
-
نواز شریف کی رہائی۔۔ انصاف یا ڈیل ۔۔ نوراللہ
مریم نواز اور ن لیگ کے متوالوں کی دعائیں قبول ہوئیں اور نواز شریف کی ضمانت منظور ہو ہی گئی-
عدالت اور سیاست کے افق پر چھایا ایک طوفان بظاہر تھمنے کو ہے اور نوازشریف کی رہائ ایک طرف تو ن لیگ کے لئے اطمینان کا سبب ہے لیکن دوسری طرف “ڈیل یا ڈھیل” کا الزام بھی شدومد کے ساتھ سامنے آرہا ہے اگرچہ اس میں میں بڑا کردار حکومتی شخصیات کا ہے جو اس حکومت کی تشکیل کے فوری بعد سے میاں برادران سمیت اپوزیشن کے زیر عتاب رہنماؤں کو ڈیل یا ڈھیل نہ دینے کے نعرے بلند کئے ہوئے ہیں- ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومتی عہدیدار احتساب کے عمل کی غیر جانبداری ثابت کرنے کے لئے عدالتوں اور دیگر متعلقہ اداروں کو خود مختاری سے کام کرنے دیتے لیکن ان کی مسلسل بیان بازی نے احتساب کے عمل کو مشکوک بنا دیا-
نوازشریف کے خلاف جتنے بھی کیسز بنائے گئے ان پر عدالت میں ہونے والی کاروائی کا مشاہدہ کر ے والے جانتے تھے کہ یہ کیسز انتہائ کمزور ہیں اور اعلی عدالتوں میں جب شواہد اور حقائق کی جانچ ہوگی تو نواز شریف کو ریلیف ملنے کے امکانات زیادہ ہیں-
سزا کی معطلی کی درخواست تو سپریم کورٹ میں زیرالتوا تھی ہی کہ میاں نواز شریف کی طرف سے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست بھی دائر کردی- آئینی ماہرین کا خیال تھا کہ طبی بنیادوں پر ضمانت جلد ہی مل جائے گی- اس دوران نوازشریف کی صحت بھی مسلسل زیربحث رہی – میاں نواز شریف کو پہلے سروسز ہسپتال اور بعد ازاں جناح ہسپتال لاہور منتقل کیا گیا لیکن اسی دوران ان کی ضمانت کی ایک درخواست مسترد ہونے پر نوازشریف اپنی مرضی سے علاج جاری رکھنے کی بجانے واپس ہسپتال منتقل ہوگئے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بگڑتی ہوئ صحت کے باوجود کوئ علاج نہیں کرائیں گے- ن لیگ کا موقف رہا ہے کہ حکومت میاں صاحب کے علاج کی بجائے ان کی تضحیک کررہی ہے-
میاں نواز شریف کی صحت کے حوالے سے میڈیکل بورڈز تشکیل پاتے رہے رپورٹس آتی رہیں، حکومت ان رپورٹس کی بنیاد پر نوازشریف کی صحت کو تسلی بخش قرار دیتی رہی تو دوسری طرف ن لیگ میاں نواز شریف کی جان کو لاحق خطرات کے بیانات دیتی رہی- حکومت دباؤ میں آگئی تھی اور جیل میں میاں صاحب کے لئے امراض قلب کا موبائل یونٹ قائم کردیا گیا اور نوازشریف کو علاج کے لئے اپنی مرضی کے معالج بلانے کی پیشکش بھی کی لیکن اسی دوران “ڈیل” کی افواہیں گردش کرتی رہیں اگرچہ ن لیگ ہمیشہ کسی ڈیل کی تردید کرتی رہی اور حکومت کا موقف بھی یہی رہا بلکہ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو نے بھی نواز شریف سے جیل میں ملاقات کے بعد کسی قسم کی ڈیل کے امکان کی تردید کی لیکن حکومت کی طرف سے بار بار کوئی “ڈیل یا ڈھیل” دینے سے انکار نے اس سوچ کو تقویت دی کہ شاید حکومت پر ڈیل کے لئے کوئ دباؤ ہے دوسری طرف نوازشریف اور مریم نواز کی معنی خیز خاموشی معاملے کو مشکوک بناتی رہی اس حوالے سے جب 23 مارچ کو سوشل میڈیا پر موجود ن لیگ کے حامیوں نے نوازشریف کےلئے جیل کے باہر احتجاج کا پروگرام بنایا تو ن لیگ کی قیادت نے اور خود مریم نواز نے ان کو احتجاج سے سختی سے منع کیا اگرچہ سینکڑوں لوگ احتجاج کے لئے جمع ہوئے لیکن اس دن پیشی پر آئ مریم نواز نے ملاقات کے بعد احتجاج کرنے والوں کا سامنا کرنے کی بجائے متبادل راستے سے خاموشی سے نکلنے کو مناسب جانا-
اب نواز شریف کو 6 ہفتے کے لئے ضمانت مل گئی ہے لیکن ابتدائی اطلاعات کے مطابق وہ پاکستان سے باہر نہیں جاسکتے لیکن امید ہے کہ عدالت سے دوبارہ رجوع کرنے پر یا شاید حکومت کی طرف سے “انسانی ہمدردی” کی بنیاد پر نوازشریف کو علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت مل جائے اور نوازشریف لندن روانہ ہوجائیں-
Post Views: 4,322 -
پہلی بار ٹینک کب استعمال ہوئے
پہلی جنگ عظیم کے پہلے پانچ ماہ میں اتحادیوں (برطانیہ، فرانس، اٹلی، روس)پانچ لاکھ فوجی ہلاک ہو چکے تھے۔
-
شہباز شریف کی بیوی ان سے زیادہ امیر
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قواعد ضوابط کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی کے میں حصہ لینے کے ہر خواہش مند امیدوار کو کاغذات نامزدگی کے ہمراہ اثاثوں کی تفصیل بھی جمع کرانا پڑے گی۔
-
-
-
-
وہ ضلع کہ جس میں کل ووٹر 39ہزار ہیں
آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ملک کے وہ کونسے اضلاع ہیں جہاں ووٹروں کی زیادہ سے زیادہ تعداد ہے جبکہ وہ کون سے ضلع ہیں جہاں سب سے کم ووٹر موجود ہیں۔
-
بھارت کتنا طاقتور ہے ؟
بھارت دنیا میں ہندو مذہب کا سب سے بڑا ملک ہے۔ لیکن آبادی کے لحاظ سے بھی دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔
-
سابق وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کتنے امیر ہیں؟
سندھ کے سابق وزیراعلی مرا د علی شاہ نے بھی عام انتخابات سے قبل کاغذات نامزدگی کے ساتھ اپنے اثاثوں کے بارے میں بھی معلومات دی ہیں۔
-
تحریک انصاف یا ن لیگ۔۔۔ سروے کیا کہتے ہیں؟
الیکشن کے دنوں میں انتخابی رجحانات کا اندازہ لگانے کے لیے ہر ملک میں سرویز معنقد ہوتے ہیں۔ 25جولائی 2018کے انتخابات کے حوالے سے
-
عمران خان کے پاس ذاتی گاڑی نہیں ہے
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی عام انتخابات سے قبل اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس جمع کرائی ہیں۔
-
ووٹ ڈالنے کا طریقہ
عام انتخابات 2018 جولائی 25 کو منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ووٹ کیسے ڈالنا ہے؟