پاکستان کیسے ٹوٹا؟ قسط نمبر 05
مزید دیکھو، سنو اور جانو
-
پاکستان کی کہانی قسط نمبر 38
جب نواز شریف نے آرمی چیف سے استعفیٰ لیا
-
-
-
پاکستان کی کہانی قسط نمبر 8
جنرل یحیٰ نے مارچ انیس سو انہتر میں صدر ایوب خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی۔
اب جنرل یحییٰ ایک ہی وقت میں پاکستان کے صدر، چیف آف آرمی سٹاف اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔
وہ چونکہ ایوب کے زوال کے اسباب دیکھ چکے تھے اس لیے انھوں نے فوراً سیاستدانوں سے کوئی لڑائی مول لینے کے بجائے ایوب دور میں سیاسی جماعتوں پر لگی پابندیوں کو ختم کیا۔ جنرل یحیٰ خان نے ایوب دور میں بنایا گیا انیس سو باسٹھ کا متنازعہ آئین بھی منسوخ کردیا۔ انھوں نے دسمبر انیس سو ستر میں صدارتی انتخابات کروائے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات تھے جس میں ایک آدمی ایک ووٹ کا اصول استعمال ہوا۔ انھیں پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف انتخابات کہا جاتا ہے۔ لیکن ان شفاف انتخابات کا نتیجہ بہت خوفناک برآمد ہوا۔
ان شفاف انتخابات میں میں بنگال کے شیخ مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کیا اور ایک سو ساٹھ نشستیں جیت لیں۔ لیکن ان کی جماعت مغربی پاکستان میں ایک بھی سیٹ حاصل نہ کر سکی۔ ادھر ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں اکیاسی نشتیں جیتیں۔ لیکن مشرقی پاکستان میں وہ ایک بھی سیٹ نہ جیت سکے۔ پاکستان واضح طور پر دو حصوں میں بٹ چکا تھا۔
پورا مشرقی پاکستان شیخ مجیب کے ساتھ کھڑا تھا اور شیخ مجیب آئینی لحاظ سے پاکستان کے نئے منتخب حکمران تھے۔ جنرل یحییٰ کی ذمہ داری تھی کہ انھیں اقتدار منتقل کرتے۔ اسی مقصد کیلئے جنرل یحییٰ نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا۔ یہ ایک تاریخی موقع تھا کہ پاکسان کو مشرقی پاکستان سے منتخب قیادت مل رہی تھی۔ لیکن بھٹو نے اس نہایت اہم تاریخی اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ نہ صرف انکار کیا بلکہ اپنے نمائندوں کو دھمکی دی کہ اگر کوئی ڈھاکہ والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں گیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ بھٹو نے جنرل یحییٰ پر اجلاس ملتوی کرنے کیلئے دباؤ ڈالا۔ جنرل یحییٰ نے یہ اجلاس ملتوی کروا دیا۔ اجلاس کا ملتوی ہونا تھا کہ مشرقی پاکستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی بنگالی سمجھ گئے کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ ہمیں اقتدار منتقل نہیں کرنا چاہتی۔ بھارت جو پہلے سے موقعے کی تاڑ میں بیٹھا تھا اس نے باغیوں کا ایک مسلح گروہ مکتی باہنی کے نام سے تیار کیا اور مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت شروع کروا دی۔ مکتی باہنی کے مسلح گروہوں نے پاک فوج اور مغربی پاکستان کے حامیوں پر حملے شروع کر دئیے۔
یہ پاکستان بچانے کا آخری موقع تھا کہ اس وقت بھی ایک اجلاس بلا کر اقتدار انتخابات جیتنے والے کے سپرد کر دیا جاتا تو شاید پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ گو کہ یہ اتنا سادہ اب نہیں رہا تھا لیکن جنرل یحییٰ نے یہ آخری موقع بھی گنوا دیا اور بغاوت کچلنے کیلئے فوجی ایکشن شروع کروا دیا۔ پاک فوج نے مکتی باہنی کی بغاوت کو نو ماہ میں کچل دیا۔ لیکن اس فوجی ایکشن کے نتیجے میں نفرت کی ندی کا پانی سروں سے بہت اونچا ہو چکا تھا۔ دوسری طرف موقع کی تاڑ میں بیٹھے بھارت نے اپنی سازش کو ناکام ہوتے دیکھا تو انٹرنیشنل بارڈر کراس کرتے ہوئے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج چاروں طرف سے گھیرے میں آ گئی۔ جغرافیہ ہمارے خلاف تھا، پاک فوج اپنے مرکز سے ایک ہزار میل دور اور چاروں طرف سے دشمنوں میں گھری ہوئی تھی۔ پاک فوج کی سپلائی لائن بھی کٹ چکی تھی اور مشرقی پاکستان کی سرزمین بیگانی ہو چکی تھی۔ شکست دیوار پر لکھی تھی۔
اس کے باوجود پاک فوج کے جوان بہادری سے لڑے، وطن کی خاطر ہزاروں جوان کٹ مرے لیکن یہ ایک ہاری ہوئی جنگ تھی۔ جسے لمبا تو کھینچا جا سکتا تھا جیتا نہیں جا سکتا تھا۔ اور ہوا بھی یہی۔ پاکستان کو اپنی تاریخ کی سب سے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور نوے ہزار پاکستانی فوجی بھارت کے قیدی بن گئے۔ ملک ٹوٹ چکا تھا اور پاکستان مشرقی او مغربی کے بجائے صرف پاکستان رہ گیا تھا۔
گو کہ ملک توڑنے کا ذمہ دار کوئی ایک فرد نہیں ہو سکتااس کے پیچھے سیکڑوں عوامل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہ دیکھنا ہو کہ آخری وقت میں وہ کون سا شخص تھا جو پاکستان کو بچا سکتا تھا لیکن اس نے نہیں بچایا تو اس کا نام ہے جنرل یحییٰ۔ جنرل یحییٰ اس لیے کہ ان کی بطور صدر اور کمانڈر ان چیف یہ ذمہ داری تھی کہ اقتدار سب سے زیادہ ووٹ لینے کو ایماندری سے منتقل کر دیتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان توڑنے کے تنہا ذمہ دار جنرل یحییٰ ہیں۔ کیونکہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔۔۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہی جنرل یحییٰ کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہو گیا۔ جنرل یحییٰ نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک کاغذ کی تحریر کے ذریعے اقتدار منتقل کر دیا۔ بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور دستور ساز اسمبلی کے سربراہ بن گئے۔ انھوں نے اقتدار سنبھالا اور جنرل یحیٰ کو نظر بند کر دیا۔ باقی زندگی میں جنرل یحیٰ زیادہ تر نظر بند ہی رہے۔ بھٹو کی پھانسی کے ایک سال بعد سقوط ڈھاکہ کا یہ اہم ترین کردار انتقال کر گیا۔
ادھر پاکستان سے الگ ہونے والے بنگلہ دیش میں ایک کے بعد ایک فوجی بغاوت جنم لیتی رہی یہاں تک کہ علیحدگی کے صرف چار سال بعد ڈھاکہ میں شیخ مجیب کو نوجوان فوجی افسروں نے گھر میں گھس کر قتل کر دیا۔ یوں صرف دس سال کے اندر اندر سقوط ڈھاکہ کے تینوں اہم کردار بھٹو، شیخ مجیب اور جنرل یحییٰ موت کی وادی میں جا سوئے۔ پاکستان نے اس سانحہ کی وجوہات جاننے کیلئے بنگال سے تعلق رکھنے والے شخص حمودالرحمان کی سرپرستی میں ہی ایک کمیشن بنایا۔ اس کمیشن نے رپورٹ تیار کی لیکن اس کی رپورٹ نہ تو بھٹو نے شائع کی اور اس کے بعد آج تک کبھی سامنے آئی۔ اس کے کچھ حصے بھارت میں تو شائع ہوئے لیکن پاکستان میں اسے کبھی پبلک نہیں کیا گیا۔
پاکستان کی کہانی جاری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت پر وہ کیا دباؤ ڈالا تھا کہ انڈیا نوے ہزار فوجی آزاد کرنے پر مجبور ہو گیا۔ جنرل ضیا الحق نے کس طرح ایک اور مارشل لا لگانے میں کامیاب ہوئے؟ یہ جاننے کیلئے اگلی قسط دیکھئے اور دیکھو سنو جانو کو سبسکرائب کیجئے۔ اگر آپ کو یہ وڈیو اچھی لگی تو لائیک، کمنٹس اور شیئر بھی ضرور کیجئے تا کہ ہم اس سلسلے کو جاری رکھ سکیں اور بہتر سے بہتر بنا سکیں۔
Post Views: 5,968 -
پاکستان کی کہانی قسط نمبر 11
جب ایس ایس جی کمانڈوز نے خانہ کعبہ کو باغیوں سے پاک کیا
-
-
1965 میں کیا ہوا؟ قسط نمبر 4
جب بھارتی فوج لاہور میں داخل ہوئی
-
پاکستان کی کہانی قسط نمبر 52
دس ووٹوں اور چار خودکش حملوں کی کہانی
-
پاکستان کی کہانی قسط نمبر 21
خلیج جنگ کا محاذ پاکستان میں۔۔ پاکستان کی کہانی قسط نمبر 20
-
-
-
-
پاکستان کی کہانی قسط نمبر 7
پاکستان کی کہانی کی ساتویں قسط دیکھ رہے ہیں۔ 1958 میں پاکستان کا پہلا ملک گیر مارشل لا لگا اور ایوب خان پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کی پرسنیلٹی کو سمجھنے کیلئے دو باتیں جاننا نہایت ضروری ہیں۔
ایک یہ کہ آزادی سے پہلے ایوب خان انڈین نیشنل آرمی میں کپتان تھے اور انگریزوں کیلئے مخبر کا کام کرتے تھے۔ وہ انگریز افسروں کو برطانوی راج کے خلاف بات کرنے والے فوجیوں کے نام بتایا کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ قائداعظم نے سیاسی قیادت کو ان کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
دوسری بات یہ کہ جنرل ایوب جمہوریت اور سیاستدان دونوں سے ہی نفرت کرتے تھے۔ اس کا اظہار انھوں نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد امریکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی کیا۔ جس میں انھوں نے بتایا کہ سیاستدان ملک کو لوٹ رہے تھے چنانچہ ملک بچانے کیلئے مجھے اقتدار سنبھالنا پڑا۔ وہ پہلے ڈکٹیٹر تھے جو برملا کہتے تھے کہ عوام ابھی اتنے باشعورنہیں ہوئے کہ انھیں ووٹ کا حق دیا جائے۔
جمہوریت اور سیاستدانوں سے ان کی نفرت اتنی زیادہ تھی کہ انھوں نے ایبڈو اور پراڈا کے بدنام زمانہ قوانین بنائے گئے۔ ان قوانین کے تحت سات ہزار سیاستدان سات، سات سال کے لیے نااہل قرار دیئے گئے۔ نااہل قرار دیئے جانے والے سیاستدانوں میں سابق وزرائے اعظم حسین شہید سہروردی اور فیروزخان نون جیسے بڑے نام بھی شامل تھے۔ ان لوگوں کو نااہل کرنے کے لیے کرپشن اور ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کسی سیاستدان پر کرپشن کے الزامات لگا کر برطرف کیا جاتا ہے یا سیکیورٹی رسک قرار دیا جاتا ہے تو سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے۔۔۔
سیاستدانوں پر کرپشن الزامات اور نااہل کرنے کے بعد ایوب خان نے اپنی مرضی کا ایک خودساختہ آئین تشکیل دیا اور انیس سو پینسٹھ میں اسی آئین کے تحت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ خودپسندی اوراقتدار کی ہوس دیکھئے کہ جنرل ایوب جو پاکستان مسلم لیگ کے صدر بھی تھے وہ خود صدارتی امیدوار کے طور پر میدان میں آ گئے۔ ان کے مقابلے کے لیے اب میدان میں کوئی سیاستدان نہیں بچا تھا کیونکہ تمام قابل ذکر سیاستدانوں کو مختلف الزامات میں نااہل کیا جا چکا تھا اور اپوزیشن بری طرح تقسیم تھی۔ ایوب خان کا خیال تھا کہ وہ بہت مقبول ہیں اور باآسانی جیت جائیں گے۔ ایسے میں تقسیم شدی اپوزیشن نے بھی شاندار پتہ کھیلا۔ انھوں نے متفقہ طور پر قائداعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو صدر پاکستان کے امیدوار کے طور پر کھڑا کر دیا۔ اس وقت وہ پاکستان کی واحد امید تھیں۔ جنرل ایوب خان فاطمہ جناح سے خوفزدہ تھے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں میں فاطمہ جناح کو پذیرائی ملنا یقینی بات تھی۔ لیکن ایوب خان نے صحت مند مقابلے کے بجائے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف کردار کشی کی گھٹیا مہم شروع کروا دی۔ بانی پاکستان کی بہن کو بھارتی ایجنٹ اور غدار کہا گیا۔
انیس سو پینسٹھ کے متنازع ترین انتخابات ہوئے اور کھلی دھاندلی کی گئی جس کے نتیجے میں ایوب خان جیت گئے۔ اتنی بڑی ناانصافی نے ایوب خان کو عوام کی نظروں سے گرا دیا۔ ایوب خان کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع ہو گئے اور سڑکوں چوراہوں پر ایوب کے خلاف ہر طرح کے نعرے لگنے لگے۔
اسی دوران دو ایسے واقعات ہوئے جن سے ملک کی معاشی حالت ڈانواں ڈول ہو گئی اورایوب خان کو بہت بڑا سیاسی دھچکا پہنچا۔ ایک واقعہ تو 1965 کی جنگ ستمبر کا ہوا۔ جس میں پاکستان نے بھارتی حملے کا بھرپور اور کامیاب دفاع کیا لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ امریکہ پاکستان سے ناراض ہو گیا۔ وجہ یہ تھی امریکہ سے پاکستان کا معاہدہ تھا کہ پاکستان امریکی ہتھیاروں کو بھارت کے خلاف استعمال نہیں کرے گا۔ لیکن ظاہر ہے جنگ میں پاکستان نے اپنی پوری طاقت بھارت کے خلاف استعمال کی جو پاکستان کا حق بھی تھا۔ لیکن اس سے امریکی امداد بند ہو گئی۔ دوسرا واقعہ معاہدہ تاشقند تھا۔ جس میں جنرل ایوب کے بارے میں یہ تاثر پھیل گیا انھوں نے بھارت میں جیتی ہوئی جنگ ستمبر مذاکرات کی میز پر ہار دی ہے۔ ان دو واقعات اور محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف دھاندلی ایوب خان کے اقتدار کیلئے زہرقاتل ثابت ہوئے۔
ذوالفقار علی بھٹو اس وقت ایوب کے وزیر خارجہ تھے اور سر عام جنرل ایوب کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ بھٹو نے حالات بدلتے دیکھے تو ایوب خان کے خلاف عوامی جذبات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے پاکستان کی پہلی عوامی جماعت پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور مغربی پاکستان کے سب سے بڑے اور پہلے عوامی لیڈربن گئے۔
جب بھٹو کی قیادت میں صدر ایوب خان کے خلاف عوامی مزاحمت بے قابو ہو گئی تو آرمی چیف جنرل یحیٰ نے مارچ انیس سو انہتر کو ایوب خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔
ایوب خان نے پاکستان پر دس سال حکومت کی اور یہ دس سال پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین سال تھے۔ ان برسوں میں ابتدائی طور پر پاکستان کھل کر امریکی کیمپ میں شامل ہوا جس کے چند مثبت نتائج یہ نکلے کہ امریکی مدد سے پاکستان نے پہلی بار منگلا اور تربیلا جیسے بڑے بڑے ڈیمز کی تعمیر کا آغاز کیا، صنعتوں اور زراعت کو فروغ دیا۔ پاک فوج مضبوط ہوئی۔ پاکستان پہلی بار گندم کی پیداور میں خودکفیل ہوا۔ بنکنگ سیکٹر پروان چڑھا اور چین سے تعلقات بہتر بنائے گئے۔ لیکن ایوب خان کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ ان کے دور میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں دوریاں اتنی بڑھ گئی تھیں کہ محض تین سال بعد ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایوب خان نے امریکی امداد سے پاکستان میں انڈسٹری کو ترقی تو دی لیکن اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے جمہوری سسٹم ڈیلیپ نہیں ہونے دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ امداد کی سر پر ہونے والی ترقی امریکی امداد کے خاتمے پر ختم ہو گئی۔ منگلا تو مکمل ہو گیا لیکن تربیلا ڈیم کے لیے پیسے ختم ہو گئے۔ تربیلا ڈیم بھٹو دور میں مکمل ہوا۔
پاکستان کی کہانی جاری ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین باب یعنی پاکستان کیسے دو ٹکڑے ہوا؟ پاکستان توڑنے کے ذمہ دار فوجی جرنیل تھے یا سیاسی حکمران؟ یہ جاننے کیلئے اگلی قسط دیکھئے اور دیکھو سنو جانو کو سبسکرائب کیجئے۔ اگر آپ کو یہ وڈیو اچھی لگی تو لائیک، کمنٹس اور شیئر ضرور کیجئے تا کہ ہم اس سلسلے کو جاری رکھ سکیں اور بہتر سے بہتر بنا سکیں۔
پاکستان کی کہانی کی مکمل اقساط دیکھیں
Post Views: 6,115 -
پاکستان کی کہانی قسط نمبر 55
ڈاکٹر عبد القدیر خان نے معافی کیوں مانگی
-
پاکستان کی کہانی قسط نمبر 16
جب بے نظیر نے افغانستان میں ایک جنگ ہاری